لیکن بابا! بھائی یہ کیوں کہہ رہے تھے کہ آپکا انتقال ہو گیا ہے؟۔۔۔ سکندر ابھی بھی اپنے بھائیوں کی کہی ہوئی بات نہیں سمجھا تھا ۔۔۔۔
بتاتا ہوں ۔۔۔ پھر لکڑہارا اپنی کہانی سُنانے لگا ۔۔۔۔ اُس دن جب میں جنگل سے گھر واپس آیا تو مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے صرف میرا جسم آیا ہے ۔۔۔ میری روح وہیں کہیں جنگل میں رہ گئی تھی ۔۔۔۔ وہ دونوں مجھے زندہ سلامت دیکھ کر حیران تھے ۔۔۔ ۔کتنے ہی دن میں اسی سکتے میں رہا ۔۔۔ تمھیں جنگل چھوڑ آنے کا دکھ مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ۔۔۔۔ کام میں بھی میرا دل نہیں لگتا تھا ۔۔ ایک دن مَنو گھر آ گیا ۔۔۔ اس کے آنے سے مجھے لگا جیسے تم آ گئے ہو ۔۔۔ میں بہت خوش ہوا ۔۔۔مگر مَنو نے تمھارے ساتھ ہونے والا واقع بتایا تو میں اندر سے کٹ سا گیا تھا ۔۔۔ مجھے سُست پڑتا دیکھ کر بختاور اور آفتاب نے کام سنبھال لیا ۔۔۔۔ جب وہ دونوں جوان ہوئے تو میں نے اُنکی شادیاں کر دیں ۔۔۔۔ گھر کے اخراجات مزید بڑھ گئے تھے ۔۔۔ اور میری دو وقت کی روٹی اُنہیں سب سے بڑا خرچ لگنے لگی ۔۔۔۔ میری بہوئیں گھر کے سارے کام مجھ سے کروانے لگیں ۔۔۔۔ مَنو کا بہت سہارا تھا مجھے ۔۔۔ میں دل کی بھڑاس اسی کے سامنے نکالتا رہتا ۔۔۔۔ ایک دن دونوں بھائی بہت بوکھلائے ہوئے گھر آئے اور ہمیں جلدی سے سامان باندھنے کو کہا ۔۔۔ ہم سب سامان باندھ کر رات و رات شہر چلے آئے ۔۔۔ میں چیختا رہا کہ اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جاؤں گا ۔۔۔ مگر کوئی بھی میری بات سُننے کو تیار نہ تھا ۔۔۔۔ شہر میں بختاور نے ایک گھر خرید لیا ۔۔۔ میں حیران تھا کہ اتنی رقم ان کے پاس کہاں سے آئی ؟۔۔۔ یہ راز بھی جلد ہی مجھ پر عیاں ہو گیا ۔۔۔ میں نے اپنی بہوؤں کو باتیں کرتے ہوئے سُن لیا تو مجھے پتہ چلا کہ اُنہوں نے گاؤں کے سردار کے گھر چوری کی تھی اسی لئیے جلدی میں گھر چھوڑ کر شہر آ گئے ۔۔۔۔میں دکھ اور شرمندگی میں ڈوب گیا تھا ۔۔۔۔
ایک دن میری بہو نے مجھے ایک اچھی سی پوشاک لا کر دی اور مجھے تیار ہونے کو کہا ۔۔۔۔ اُس شام بختاور اور آفتاب مجھے اپنے ساتھ لے گئے ۔۔۔ منَو میرے ساتھ جانے کے لئیے بضد تھا ۔۔۔ لیکن بختاور اسے ساتھ لے جانے کے لئیے تیار نہیں تھا ۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مَنو کو میرے ساتھ لے آیا ۔۔۔۔ وہ مجھے ایک محل نما گھر لے گئے ۔۔وہ گھر ایک تاجر کا تھا ۔ وہاں اُنہوں نے مجھے اس تاجر کو غلام کے طور پر بیچ دیا ۔۔۔ میں وہاں بے بس بیٹھا اپنی قسمت کو روتا رہا ۔۔۔۔
اُس وقت مجھے دلاسہ دینے کے لئیے صرف مَنو ہی تھا ۔۔۔۔ اُس روز پہلی بار مجھے احساس ہوا تمھاری تنہائی کا ۔۔۔ تمھاری اور مَنو کی دوستی کی سچائی کا ۔۔۔ ۔مگر وقت گزر چکا تھا ۔۔۔ اور گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا ہے ۔۔۔۔ میں تاجر کے گھر میں کام کرنے لگا ۔۔۔ پھر ایک دن میں نے سُنا کہ بادشاہ کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہے ۔۔۔۔ اور تاجر نے مجھے کچھ قالین محل میں پہنچانے کے لئیے کہا ۔۔۔۔ محل کے داخلی دروازے پر پہرے دار نے ہمیں انتظار کرنے کو کہا ۔۔۔ وہاں کھڑے کھڑے مجھے بہت پیاس لگ گئی تھی ۔۔۔ میں نے پہرے دارسے پانی مانگا تو اس نے کہا کہ محل کے بائیں جانب ایک کنواں ہے وہاں سے پانی پی آؤ۔۔۔ تب تک میں تمھارے سامان کا دیھان رکھتا ہوں ۔۔۔ میں منو کو بیل گاڑی کے پاس چھوڑ کر پانی پینے چلا گیا ۔۔۔ میں کنویں کے پاس پہنچا ہی تھا کہ مجھے سرگوشیوں کی آواز سُنائی دی ۔۔۔ میں محل کی دائیں دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر چھپ کر اُن لوگوں کو دیکھنے لگا ۔۔۔ وہاں دو لوگ تھے مگر اُن دونوں نے ہی نقاب پہن رکھے تھے ۔۔۔۔
اگر آج ہم شہزادی کو لے جانے میں کامیاب ہو گئے تو ہم مالا مال ہو جائیں گے ۔۔۔ اُن میں سے ایک نقاب پوش بولا ۔۔۔
آج محل میں بہت بھیڑ ہو گی ۔۔۔ ہر خاص و عام کو محل میں جانے کی اجازت ہو گی ۔۔۔ ہم شہزادی کو بیہوش کر کے لے جائیں گے اور بادشاہ سے مُنہ مانگی رقم وصول کریں گے ۔۔۔ دوسرا نقاب پوش اپنی بات مکمل کر کے ہنسنے لگا ۔۔۔۔اور وہ دونوں دیوار چڑھنے لگے ۔۔۔جو سیدھی شہزادی کی آرام گاہ میں جاتی تھی ۔۔۔
میں ان دونوں کی آواز لاکھوں کیا کروڑوں میں بھی پہچان سکتا ہوں ۔۔۔ وہ بختاور اور آفتاب تھے ۔۔۔۔ لکڑہارا نظریں جُھکا کر رونے لگا ۔۔۔۔
اِسکا مطلب ہے اُس روز پہرے دار سچ بول رہا تھا ۔۔۔ بھائی شہزادی کو اغوا کرنے ہی آئے تھے ۔۔۔ سکندر مُنہ میں ہی بُڑبڑایا ۔۔۔
تم بھی اُس روز محل گئے تھے کیا ؟۔۔۔ لکڑہارے نے حیران ہو کر پوچھا ۔۔۔
جی ۔۔۔گیا تھا ۔۔۔ آپ بتائیں پھر کیا ہوا ؟۔۔۔ سکندر نے سرسری سا جواب دے کر باقی بات سُنانے کو کہا ۔۔۔
پھر میں نے پہرے دار کو ان کے بارے میں بتا دیا ۔۔۔ مگر پہرے دار کو لگا کہ میں محل میں جانے کے لئیے اُسے وہاں سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔اُس نے میری بات ماننے سے انکار کر دیا ۔۔۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جائیں ۔۔۔ میں نے پہرے دار کی بہت منت کی اور اُسے یقین دلایا کہ میں اس کے آنے تک محل میں داخل نہیں ہوں گا ۔۔۔
اُس کے بعد محل میں شور بھی ہو اکہ دو چور پکڑے گئے ہیں ۔۔۔
وہاں گرمی میں انتظار کرتے کرتے میرا پیاس سے بُرا حال ہونے لگا تھا ۔۔۔ میں اپنی بیل گاڑی لے کر کنویں کی جانب آ گیا ۔۔۔ وہاں کھڑے کھڑے میں بہت تھک گیا تھا اس لئیے میں سستانے کے لئیے کنویں کے پاس ہی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب میری آنکھ لگ گئی ۔۔۔ کافی دیر بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں جلدی سے اپنا سامان لے کر دوبارہ محل کے آگے آ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔
مگر میں بہت حیران ہوا جب میں نے سُنا کہ بادشاہ نے اُنہیں رہا بھی کر دیا تھا ۔۔۔ میں مال وہاں دے کر تاجر کے پاس واپس آ گیا ۔۔۔ دو روز بعد بادشاہ نے تاجر کو اپنے محل بُلایا ۔۔۔ تاجر جب واپس آیا تو آتے ہی مجھے مارنے لگا ۔۔۔ میں نے وجہ پوچھی تو اُس نے مجھے بتایا کہ میں نےدو معزز لوگوں پر الزام لگایا ہے ۔۔۔ محل کے پہرے دار نے بادشاہ کو پتا نہیں کیا بتایا تھا کہ بادشاہ نے غصے میں تاجر کو بھی جرمانہ بھرنے کے لئیے کہا جس کا غصہ تاجر مجھ پر نکالنے لگا ۔۔۔اُس نے مجھے قیدخانے میں ڈلوا دیا ۔۔۔ وہاں میں بہت بیمار ہو گیا ۔۔۔ جب تاجر کو لگنے لگا کہ میں مر جاؤں گا تو اُس نے مجھ اپنے گھر سے نکال دیا ۔۔۔ مَنو نے اُس کی بہت مِنت کی کہ مجھے کسی طبیب کو دکھا دے مگر وہ ایک نہ مانا اور ہمیں دھکے دے کر گھر سے نکال دیا ۔۔۔
پھر بھلا ہو اِس نیک انسان کا جس نے میری دوا دارو کی اور باقی سب تمھارے سامنے ہے۔۔۔لکڑہارے نے خدابخش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
مجھے معاف کر یں بابا آپ کو میری غلطی کی سزا ملی ہے ۔۔۔اُس دن میں نے ہی بھائیوں کو بادشاہ سے آزاد کروایا تھا ۔۔۔ اور خدا بخش تمھارا بہت بہت شکریہ تم نہیں جانتے تم نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے ۔۔۔ یہ احسان میں ہمیشہ یاد رکھوں گا ۔۔۔ سکندر نے ندامت سے چور ہوتے ہوئے خدابخش کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔۔۔۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ مالک ۔۔۔آپ پر تو میری جان بھی قربان ہے ۔۔۔ آپ مجھے شرمندہ نہ کریں ۔۔۔ خدا بخش سکندر کو شرمندہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا
ایک اور احسان کر دو مجھ پر خدا بخش ! ۔۔۔ سکندر نے خدا بخش کو مخاطب کیا ۔۔۔
آپ حکم کریں مالک!۔۔۔ خدا بخش نے مودبانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔
میں نے جو غلطیاں کی ہیں وہ سُدھارنا چاہتا ہوں اور اُس کے لئیے مجھے تمھاری مدد درکار ہے ۔۔۔ تمھیں کچھ دن بابا کو اپنے پاس ہی رکھنا پڑے گا ۔۔۔ اور جب میں کہوں گا تم اِنہیں لے کر محل آ جانا ۔۔۔سکندر خدابخش کو تاکید کرنے لگا ۔۔۔
جو آ پکا حکم مالک! خدا بخش نے سر جُھکا کر کہا ۔۔۔
تمھارا بھی بہت بہت شکریہ منو ۔۔۔ تم نے بابا کا بہت ساتھ دیا ہے ۔۔۔۔ سکندر نے منو کا بھی شکریہ ادا کیا۔۔۔
دوست ہوں تمھارا ۔۔۔ شکریہ کہہ کر ہماری دوستی کی توہین مت کر ۔۔۔ مَنو بھی جواب تیار رکھے بیٹھا تھا ۔۔ سکندر کو اس پہ بہت پیار آیا ۔۔۔ اس نے منو کو ہاتھ میں لیا اور سر پر بوسہ دیا ۔۔۔۔
بابا میں آپ کو جلد یہاں سے لے جاؤں گا ۔۔۔۔ سکندر اُن کو خدا حافظ کہہ کر محل واپس چلا آیا ۔۔۔۔
محل میں داخل ہوتے ہی سکندر کی نظر باغیچے میں بیٹھی بھابئیوں پر پڑی ۔۔۔
تمھیں پتہ ہے آج تو سکندر کارخانے پہنچ گیا تھا ۔۔۔ تمھارے بھائی نے بہت مشکل سے حالات کو قابو کیا ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا ۔۔۔ سائرہ نے سرگوشی میں نجمہ کو بتایا ۔۔۔
بختاور بھائی تو ہیں ہی بہت ذہین انسان ۔۔۔ اگر وہ اسی ذہانت سے کام لیتے رہے تو ہم ایک دن کامیاب ہو جائیں گے اپنے حالات بدلنے میں ۔۔۔ نجمہ نے پُر جوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
باغیچے سے گزرتے ہوئے سکندر نے دونوں کی گفتگو صاف آواز میں سُنی تھی ۔۔۔ اس کے سامنے سب کے چہرے عیاں ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اپنوں سے شرمندہ بھی تھا
ارے سکندر تم کب آئے ؟۔۔۔۔ سائرہ کی اچانک سکندر پر نظر پڑی تو وہ ہڑبڑا گئی ۔۔۔ آؤ آؤ بیٹھو ابھی ہم تمھارا ہی ذکر کر رہے تھے ۔۔۔۔تم گھر نہیں ہوتے تو گھر ہی سُنسان لگتا ہے ۔۔۔۔ سکندر خاموش کھڑا سائرہ کو دیکھنے لگا اور کوئی جواب دئیے بغیر ہی وہاں سے چلا گیا ۔۔۔
اسے کیا ہوا ہے؟۔۔۔ سائرہ نے سکندر کو جاتے دیکھا تو حیرانگی سے نجمہ سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
مجھے کیا پتہ۔۔۔۔ نجمہ نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
سکندر اپنی آرام گاہ میں داخل ہوا تو شہزادی مہ جبین اسی کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ خیریت ہے نہ ؟ آج آپ نے بہت دیر کر دی ؟
ہمم۔۔ خیریت ہی ہے ۔۔۔ سکندر نے مختصر جواب دیا اور اپنے بستر پر آ کر بیٹھ گیا ۔۔۔ اور کچھ سوچنے لگا ۔۔۔۔
اس جمعہ کو ہم ایک دعوت رکھیں گے ۔۔۔ اور اُس دعوت میں بادشاہ سلامت اور پورے شہر کو مدعو کریں گے ۔۔۔ سکندر نے شہزادی مہ جبین کو کہا۔۔۔
اچانک سے یہ دعوت کا خیال آپکے ذہن میں کیسے آیا ؟۔۔۔شہزادی سکندر کے یوں دعوت دینے پر حیران تھی۔۔۔
بس یوں ہی شہزادی! شادی کے بعد آپ کے بابا بھی ہمارے گھر نہیں آئے کبھی ۔۔۔اسی بہانے وہ بھی آ جائیں گے ۔۔۔ سکندر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
جی بہتر ۔۔۔میں محل میں انتظام دیکھ لوں گی ۔۔۔ شہزادی بھی مسکرا دی ۔۔۔۔
اگلے ہی دن دعوت کی خبر بختاور اور آفتاب کو بھی دی گئی ۔۔۔ وہ سب بھی یوں اچانک دعوت پہ حیران تھے ۔۔۔۔ بختاور اور آفتاب سکندر کے پاس پہنچ گئے ۔۔۔ سکندر میاں ! کس بات کی دعوت دی جا رہی ہے ۔۔۔ بختاور نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
کچھ خاص نہیں بھائی جان !۔۔۔ بس اپنے کسی قریبی سے آپ کو ملوانا ہے ۔۔۔ اور اُس دن میں ایک اور خبر دوں گا جس میں آپ لوگوں کے لئیے بھی بہت کچھ ہو گا ۔۔۔ جو شاید آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو ۔۔۔ سکندر یہ کہہ کر راہداری میں سے گزرتا ہوا باغیچے کی طرف چلا گیا ۔۔۔
اور وہ دونوں من ہی من میں خوش ہونے لگے کہ پتہ نہیں سکندر کیا کچھ ان دونوں کو دے دے گا۔۔۔ چلئیے بھائی جان ۔۔۔ خواتین کو بھی یہ خبر سُناتے ہیں ۔۔۔ آفتاب نے پُر جوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔ وہ دونوں خوشی خوشی زنان خانے کی طرف چل دئیے ۔۔۔
کیا کہہ رہے ہو آفتاب !۔۔۔ مجھ سے تو اُس دن تک صبر کرنا مشکل ہو جائے گا ۔۔۔ سائرہ نے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے کہا ۔۔۔
سچ کہہ رہا ہوں بھابی ۔۔۔ میں بھلا جھوٹ کیوں بولوں گا ۔۔۔ آفتاب نے سائرہ کو یقین دلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
ہائے ۔۔۔۔ قسم سے بھابی میں تو کہتی ہوں اُس دن ہم یہ محل اپنے نام کروا لیں گے ۔۔۔ کیا پتہ وہ یہ سب ہمیں دے ہی دے ۔۔۔ نجمہ جوش میں کیا بولے جا رہی تھی اُسے خود بھی نہیں پتہ تھا ۔۔۔ وہ سب نجمہ کو دیکھ کر ہنسنے لگے ۔۔۔ پہلے تو وہ شرمندہ ہوئی ۔۔۔ پھر وہ بھی کھسیانی ہنسی ہنسنے لگی ۔۔۔۔
سب کو بے چینی سے دعوت کے دن کا انتظار تھا ۔۔۔
اور انتظار ختم ہوا اور جمعہ کا دن آ گیا ۔۔۔ پورے محل میں جشن کا انتظام کروایا گیا ۔۔۔ غلام اور کنیزیں محل کو دلہن کی طرح سجا رہے تھے ۔۔۔۔
بادشاہ بھی سکندر کی پُر لطف دعوت سے بہت محظوظ ہو رہے تھے ۔۔۔ بادشاہ کی نظر اچانک آفتاب اور بختاور پر پڑی تو وہ بہت حیران ہو گئے ۔۔۔
سکندر ! غالباً یہ دونوں وہی ہیں جنہیں اس دن آپ اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔۔۔ آپ کے کہنے پر ہم نے مان تو لیا تھا کہ یہ دونوں بے قصور ہیں ۔۔۔ مگر ہمیں آج تک یقین نہیں آیا ان پر ۔۔۔۔ بادشاہ نے سخت لہجے میں کہا ۔۔۔ جس کی سختی پاس کھڑے آفتاب اور بختاور نے بھی محسوس کی ۔۔۔۔
گستاخی معاف بادشاہ سلامت ! ۔۔۔ ان کے بارے میں میں آپ کو دعوت کے اختتام پر آگاہ کر دوں گا ۔۔۔ سکندر نے مودبانہ انداز میں کہا تو بادشاہ سلامت مطمعین ہو گئے ۔۔۔۔ سب لوگ کھانا کھا چکے تھے ۔۔۔ مگر سکندر بار بار داخلی دروازے کو دیکھتا ۔۔۔۔
آپ کس کا انتظار کر رہے ہیں ؟۔۔۔ شہزادی مہ جبین نے بھی سکندر کی بے چینی کو محسوس کیا تھا ۔۔۔
محل میں داخل ہوتے لکڑہارے ، خدابخش اور منو کو دیکھ کر سکندر کی بے چینی مسکراہٹ میں بدل گئی ۔۔۔
اُن کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔سکندر نے داخلی دروازے کی طرف اِشارہ کیا ۔۔۔۔ شہزادی نے سکندر کی نظروں کے تعقب میں دیکھا تو اُسے دو انجان لوگ اندر آتے دِکھائی دئیے ۔۔۔۔
سکندر مُسکراتا ہوا بادشاہ سلامت کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔
بادشاہ سلامت اور محترم حاضرین !۔۔۔ سکندر نے اونچی آواز میں کہتے ہوئے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔۔ میں آج آپ لوگوں کو اُن سے ملوانا چاہتا ہوں جنہیں میں اپنی جان سے بھی ذیادہ چاہتا ہوں ۔۔۔ اور جن کے لئیے آج کی دعوت رکھی گئی ہے ۔۔۔۔
آفتاب اور بختاور کو لگ رہا تھا کہ وہ اُن دونوں کو بادشاہ سے متعارف کروائے گا اپنے بھائیوں کی حیثیت سے ۔۔۔ اُن دونوں نے گردنیں اکڑا کر اپنی بیویوں کو دیکھا جو فخر سے اُنہیں ہی دیکھ رہی تھیں ۔۔۔
میں آج جو بھی ہوں اُنہی کی بدولت ہوں ۔۔۔ وہ مجھ سے بچھڑ گئے تھے ۔۔۔ لیکن وہ جب مجھے دوبارہ ملے تو مجھے لگا کہ میری زندگی کا مقصد مل گیا ہے ۔۔۔۔ آج میں بہت خوش ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میری اس خوشی میں آپ سب لوگ میرا ساتھ دیں اور میرے بابا کا میرے ساتھ استقبال کریں ۔۔۔ سکندر نے آخری جملہ کہتے ہوئے داخلی دروزے کی طرف اِشارہ کیا ۔۔۔ سب نے مُڑ کر دیکھا اور لکڑہارے کو دیکھ کر تالیاں بجانے لگے ۔۔۔ لکڑہارے نے ایک خوبصورت پوشاک زیب تن کی ہوئی تھی جو سکندر نے ہی بھجوائی تھی ۔۔۔۔ اور خدا بخش کو تنبیہ کی تھی کہ جب وہ کہے گا اُسی دن بابا کو لے کر محل آ جانا۔۔۔
وہاں موجود سب لوگ بہت خوش تھے سوائے اُن چاروں کے ۔۔۔ اُن چاروں کو لگ رہا تھا کہ اُن کے اِرد گِرد کی ہوا جیسے سکندر نے یا اُس کے بابا نے اپنے قبضے میں کر لی ہو ۔۔۔ اُنکے لئیے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اِس سے پہلے کہ وہ چاروں وہاں سے بھاگ جاتے ۔۔۔ سکندر نے اپنے سپاہیوں کو اِشارہ کیا کہ انہیں پکڑ لیں ۔۔۔
سکندر نے لکڑہارے کو بادشاہ اور شہزادی مہ جبین سے ملوایا ۔۔۔ بادشاہ بہت فراغدلی سے سکندر کے بابا سے ملا ۔۔۔۔
مجھے معاف کر دیجئیے بادشاہ سلامت ! ۔۔۔ اُس دن میں آپ کے مجر م غلط فہمی میں اپنے ساتھ لے آیا تھا ۔۔۔ آپ انہیں اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں ۔۔۔ آپ جو بھی سزا اِن کے لئیے تجویز کریں گے مجھے منظور ہے۔۔۔۔ سکندر نے شرمندگی سے نظریں جھکا کر بادشاہ سے کہا ۔۔۔
ہمیں معاف کر دو سکندر ہمیں معاف کر دو ۔۔۔ دونوں بھائی سکندر کے پیروں میں گِر کر معافی مانگنے لگے ۔۔۔ ۔
بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو اِشارہ کیا تو وہ بختاور اور آفتاب کو گھسیٹتے ہوئے لے جانے لگے۔۔۔
سکندر انہیں معاف کر دو خدا کے لئیے انہیں معاف کر دو۔۔۔ لکڑہارے کو اپنے بیٹوں کی حالت پر ترس آنے لگا ۔۔۔۔
بابا جان!۔۔۔ انہوں نے جو کچھ بھی میرے ساتھ کیا وہ سب میں معاف کر سکتا ہوں مگر جو آپ کے ساتھ کیا اور جو شہزادی کے ساتھ کرنے جا رہے تھے ۔۔وہ میں کبھی معاف نہیں کر سکتا ۔۔۔۔سکندر نے سخت لہجے میں کہا ۔۔۔
بادشاہ کے سپاہی اُنہیں گھسیٹتے ہوئے لے گئے ۔۔۔ نجمہ سائرہ اور بچوں کو اُنکے پرانے گھر بھیج دیا گیا ۔۔۔
کچھ عرصے بعد لکڑہارے کی بے چینی دیکھتے ہوئے سکندر نے بادشاہ سے سفارش کی کہ دونوں بھائیوں کی سزا میں کمی کی جائے ۔۔۔ جو کہ بادشاہ نے مان لی ۔۔۔
سکندر اور مہ جبین ہنسی خوشی اپنی زندگی گزارنے لگے ۔۔منو کی دوستی اب سکندر کے بچوں سے بھی ہو گئی تھی۔۔۔ لکڑہارا بھی بہت خوش رہنے لگا اسے بھی قسمت پر یقین آ گیا تھا ۔۔۔ نجومی کی بات سچ ہو گئی تھی ۔۔بس وہ ہی بے صبرا ہو گیا تھا ۔۔۔ لیکن اب شکر ادا کرنے میں دیر نہیں کرنی تھی ۔۔۔اور یہ بات لکڑہارا جان گیا تھا ۔۔۔