آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟۔۔۔ہم آپ کی بات کا مقصد نہیں سمجھے۔۔۔بادشاہ نے سکندر سے پوچھا ۔۔۔
بادشاہ سلامت ! ۔۔۔ بقول اِس پہرے دار کے ، یہ دونوں شہزادی صاحبہ کو اغوا کرنے آئے تھے ۔۔۔ لیکن اِس کے پاس اِس بات کا کوئی ثبوت یا گواہ تو ہو گا نہ۔۔۔اور اگر کوئی گواہ یا ثبوت نہیں ہے تو پھر یہ دونوں گناہ گار کیسے ہو سکتے ہیں؟۔۔۔سکندر کے دلائل سن کر بادشاہ ایک بار پھر سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔
بادشاہ سلامت میرے پاس گواہ ہے ۔۔۔ باہر ایک تاجر کا غلام کھڑا ہے اس نے خود ان دونوں کو محل کی دیوار چڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔۔۔پہرے دار نے سر جھکا کر کہا۔۔۔
اگر ایسی بات ہے تو اسے دربار لے آؤ۔۔۔بادشاہ نے پہرے دار کو حکم دیا۔۔۔
سکندر پھر سے پسینے میں بھیگنے لگا۔۔۔
پہرے دار باہر چلا گیا اور کافی دیر گزرنے کے بعد جب وہ واپس نہ آیا تو بادشاہ نے ایک سپاہی کو بھیجا کہ پہرےدار کو دربار حاضر کیا جائے۔۔۔
سپاہی جب پہرے دار کو لے کر آیا تو وہ بہت ڈرا ہوا تھا ۔۔۔۔
بادشاہ سلامت ! ۔۔۔ وہ بوڑھا غلام نہ جانے کہاں چلا گیا ہے۔۔۔ آپ میرا یقین کریں میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔۔۔پہرےدار خوف اور شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔
یہ بات سُنتے ہی سکندر کی جان میں جان آئی تھی۔۔۔ میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ دونوں بے قصور ہیں۔۔۔سکندر کے چہرے پر خوشی کے تاثرات واضح تھے۔۔۔
وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھی ثابت نہیں ہوا کہ یہ دونوں بے قصور ہیں۔۔۔ بادشاہ ابھی بھی اپنی بات پہ قائم تھا ۔۔۔
بادشاہ سلامت! آپ کو ابھی بھی یہی لگتا ہے کہ یہ دونوں مجرم ہیں ؟۔۔۔حالانکہ نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ کوئی گواہ ۔۔۔ سکندر نے پھر سے بادشاہ کو دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی۔۔۔
بختاور اور آفتاب بہت حیران تھے کہ یہ آخر ہے کون جو ہمارے لئیے لڑ رہا ہے۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔ آپ کہتے ہیں توہم انہیں معاف کر دیتے ہیں ۔۔۔ورنہ یہ اس قابل نہیں کہ انہیں معاف کیا جائے ۔۔۔بادشاہ نے سکندر کی بات مان لی اور انہیں سکندر کے سپاہیوں کے حوالے کر دیا گیا۔۔۔
بختاور اور آفتاب بہت حیرانگی سے سکندر کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ اُنہیں سکندر کی آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی مگر وہ سکندر کو پہچان نہیں پائے۔۔۔
سکندر نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان دونوں کو باعزت طریقے سے محل لے جائیں ۔۔۔پھر پہرے دار کے ساتھ کیا معاملہ ہوا سکندر کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔۔
سکندر شہزادی مہ جبین کو بیاہ کر اپنے محل لے آیا۔۔۔ شہزادی مہ جبین بہت خوبصورت اور خوب سیرت شہزادی تھیں۔۔۔
محل پہنچتے ہی سکندر سیدھا اپنے بھائیوں کے پاس گیا۔۔۔۔انہیں دیکھتے ہی وہ انکے گلے لگ گیا۔۔۔
وہ دونوں سکندر کی حرکات پہ بہت حیران تھے۔۔۔ لیکن وہ اب بھی سکندر کو نہیں پہچان رہے تھے ۔۔۔
میں ہوں بھائی ! ۔۔ سکندر آپکا چھوٹا بھائی سکندر ۔۔۔ سکندر نے پُر جوش ہوتے ہوئے انہیں اپنا تعارف کروایا۔۔۔
وہ دونوں بے یقینی سے کبھی سکندر کو دیکھتے تو کبھی ایک دوسرے کو دیکھتے ۔۔۔۔اُنہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سکندر ہے۔۔۔
میں سچ کہہ رہا ہوں بھائی ۔۔۔ میں سکندر ہوں ۔۔ سکندر نے پھر سے اُنہیں یقین دلانے کی کوشش کی۔۔
تم تو جنگل میں رہ گئے تھے ۔۔۔ یہاں کیسے آ گئے ہو ؟۔۔۔ آفتاب نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔۔۔
میں وہاں سے بچ نکلا بھائی جان ۔۔۔ یہ بہت لمبی کہانی ہے ۔۔۔پھر کبھی سُناؤں گا۔۔ لیکن آپ لوگ کہاں چلے گئے تھے ۔۔۔میں نے کتنا ڈھونڈا آپ لوگوں کو ۔۔۔ اور بابا کہاں ہیں ؟۔ اور آپ لوگ یہاں کیسے پہنچ گئے ؟۔۔۔وہ لوگ آپ پر چوری کا الزام کیوں لگا رہے تھے؟۔۔سکندر نے کتنے ہی سوال ایک ساتھ پوچھ لئیے تھے۔۔۔
سکندر کے سوال سُن کر وہ دونوں گڑبڑا گئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔پھر بختاور نے گلا کھنکارتے ہوئے بولنا شروع کیا۔۔۔
تمھیں کیا بتاؤں سکندر ۔۔ تمھارے جانے کے بعد ہمارے اوپر کیا بیتی ہے۔۔۔ گھر کے حالات بہت ہی خراب ہو گئے تھے ۔۔۔ نوبت فاقوں تک آ گئی تھی ۔۔۔ بابا کی طبیت بھی بہت خراب رہنے لگی تھی ۔۔۔ دو سال پہلے ہی انکا انتقال ہو گیا تھا ۔۔۔ بختاور کی بات سُن کر جہاں سکندر افسردہ ہو گیا تھا وہیں آفتاب نے بھی چونک کر بختاور کو دیکھا ۔۔۔۔ لیکن بختاور نے آفتاب کو چُپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
اور وہ پہرے دار ۔۔کمبخت جھوٹ بول رہے تھے ۔۔۔ میرے بیٹے کی طبیعت بہت خراب تھی ۔۔اور میرے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے ۔۔۔ ہم تو بس بادشاہ کے وزیر سے اُدھار مانگنے گئے تھے ۔۔۔ وہ پہرےدار ہمیں شہزادی کی آرام گاہ میں لے گیا۔۔۔ اُس نے ہمیں شہزادی کے گہنے چوری کرنے کو کہا ۔۔۔لیکن ہم نے صاف انکار کر دیا۔۔۔ ہمارا انکار سُن کر وہ غصے میں آ گیا اور سارا الزام ہم پہ لگا دیا۔۔۔ بختاور نے ساری کہانی سُناتے ہوئے آفتاب کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ کیوں آفتاب سچ کہہ رہا ہوں نہ میں ۔۔۔ بتا نہ سکندر کو کہ کیسے اُس پہرےدار نے ہمیں بیوکوف بنایا تھا ۔۔۔
ہاں ہاں بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے بھائی بختاور ۔۔۔۔ آفتاب نے ہاں میں سر کو ہلاتے ہوئے سکندر کو یقین دلانے کی پوری کوشش کی۔۔۔
سکندر اپنے بابا کی موت کا سُن کر بہت افسردہ ہو گیا تھا ۔۔۔
سکندر تو پریشان نہ ہو ۔۔۔ اب ہم تیرے ساتھ ہیں ۔۔۔ تو اکیلا نہیں ہے ۔۔۔ تجھے کیا پتہ ہم نے تجھے کتنا ڈھونڈا ہے ۔۔۔آفتاب نے سکندر کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔
ہم نے تو تمھیں یوں ہی پریشان کر دیا ہے ۔۔۔۔ آج تو تیری شادی ہے نہ ۔۔۔ بختاور نے سکندر کو یاد دلایا تو اُسے یاد آیا کہ ابھی کچھ گھنٹے پہلے ہی اُسکی شادی ہوئی ہے ۔۔۔ اور اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھے اسے کافی رات گزر گئی تھی۔۔۔
سکندر نے اپنے بھائیوں سے اجازت مانگی اور اپنی آرام گاہ کی طرف چلا گیا ۔۔۔جہاں شہزادی مہ جبین اُسکی مُنتظر تھی ۔۔۔
اگلی صبح جب سکندر کی آنکھ کھلی تو محل میں کافی شور سُنائی دیا۔۔۔ سکندر نے بالکنی میں آ کر دیکھا تو محل کے باغیچے میں اُسکے بھائیوں کے ساتھ دو عورتیں باتوں میں مشغول تھیں ۔۔۔۔اور کچھ بچے باغیچے کے پھولوں کو درہم برہم کر رہے تھے ۔۔۔
یہ سب کون ہیں ؟۔۔۔ سکندر نے وہیں سے اپنے پہرے دار سے سوال کیا
یہ آپکے بھائیوں کے بیوی بچے ہیں صاحب ۔۔۔ سکندر نے ایک نظر اپنے باغیچے کو دیکھا اور پھر ایک نظر اُن سب پہ ڈالتے ہوئے اپنی آرام گاہ میں واپس آ گیا۔۔۔۔
کنیز نے سکندر اور مہ جبین کو ناشتہ پیش کیا ۔۔۔ ناشتہ کر کے وہ دونوں بھی باغیچے میں چلے گئے ۔۔۔
میں صدقے میں واری جاؤں اپنے دیور پہ ۔۔۔کتنا ہی پیارا لگ رہا ہے ۔۔۔ جیسے ہی سکندر باغیچے میں داخل ہوا اُن میں سے ایک عورت بھاگتے ہوئے سکندر کے پاس آئی اور اُسکے صدقے واری جانے لگی ۔۔۔اُسی طرح دوسری بھی سکندر کی بلائیں لینے لگی ۔۔۔شہزادی مہ جبین کو تعجب ہونے لگا۔۔۔
سکندر نے سوالیہ نظروں سے اپنے بھائیوں کو دیکھا ۔۔۔
بختاور اور آفتاب باغیچے میں بچھے ہوئے تخت پوش پر پاؤں پھیلائے بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔سکندر کی سوالیہ نظروں کو سمجھتے ہوئے وہ دونوں سکندر کی طرف آئے ۔۔۔
ارے سکندر یہ تمھاری بڑی بھابی ہے سائرہ ۔۔۔ بختاور نے پہلی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔اور یہ تمھاری چھوٹی بھابی ہے نجمہ۔۔۔ پھر اُس نے دوسری عورت کا تعارف کروایا
ابھے کمبختو ! ادھر آؤ ۔۔اپنے چچا سے تو ملو آ کر ۔۔۔آفتاب نے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے بُلایا
بچے بھاگتے ہوئے آئے اور سکندر کے ساتھ چپک گئے۔۔۔ سکندر حیرانگی سے اُنہیں دیکھنے لگا ۔۔۔
یہ تمھارے بھانجے بھانجیاں ہیں سکندر ۔۔۔ بختاور نے بچوں کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔۔۔
شہزادی نے تعجب سے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر سکندر کو دیکھا۔۔۔
سکندر زبردستی مسکراتے ہوئے کندھے اُچکانے لگا۔۔۔
تمھارا گھر تو بہت ہی خوبصورت ہے سکندر ۔۔۔ ہمارا گھر تو دیکھنے کے قابِل بھی نہیں ہے ۔۔۔ جس میں ہم کب سے گزر بسر کر رہے ہیں ۔۔۔ سائرہ افسردہ ہوتے ہوئے آنکھیں صاف کرنے لگی ، حالانکہ اُسکی آنکھ میں ایک بھی آنسو نہیں تھا۔۔۔
ارے بھاگیوان ! ہمارا بھائی اب ہمیں اُس ڈربے میں تھوڑی رہنے دے گا۔۔۔ اِتنا بڑا محل ہے اسکا اب وہ ہمیں یہاں ہی رکھے گا ۔۔۔ تو بِلا وجہ ہی رو رہی ہے ۔۔۔ بختاور نے بڑی مہارت سے اپنی محل میں رہائش کا سکندر کو آگاہ کیا۔۔۔
بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں بھائی جان۔۔۔ کیوں سکندر؟ ۔۔۔۔آفتاب نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا ۔۔۔
جی بلکل ۔۔۔ کیوں نہیں بھائی جان ! ۔۔۔ آپ لوگ یہاں آرام سے رہ سکتے ہیں ۔۔۔ سکندر نے خوشدلی سے اُنکو اپنے محل میں رہنے کی اجازت دے دی۔۔۔
کیسی باتیں کرتے ہیں آپ سب بھی نہ۔۔ سکندر کو بھلا ہمارے یہاں رہنے سے کوئی اعتراز کیوں ہو گا۔۔۔ یہ ہمارا پیارا بھائی ہے ۔۔۔ تم دونوں بھائیوں کا اپنا خون ہے ،، سائرہ سکندر کے بارے میں ایسے بات کر رہی تھی جیسے صدیوں سے اُسی کے ساتھ رہ رہی ہو۔۔۔
مگر تم لوگ یہ بھی تو دیکھو نہ اُسکی نئی نویلی دلہن ہے ۔۔ اور یہاں کی شہزادی بھی ہے ،،، اُسے تو ہمارے یہاں رہنے سے اعتراز ہو سکتا ہے نہ۔۔۔ سائرہ نے بڑی چالاکی سے شہزادی مہ جبین کو اپنی زد میں لے لیا
سکندر جو اپنے بھائیوں کو دیکھ کر بھول ہی گیا تھا کہ شہزادی مہ جبین بھی اسکی زندگی میں برابر کی شریک ہے ۔۔۔ اسکے سبھی فیصلوں میں اُسکا بھی حق ہے ۔۔۔ اُس نے شرمندہ ہوتے ہوئے سوالیہ نظروں سے شہزادی مہ جبین کو دیکھا ۔۔۔۔
جب اِنکو کوئی اعتراز نہیں تو مجھے کیا اعتراز ہو سکتا ہے ۔۔۔ اور جیسے آپ اِنکے بھائی ہیں ویسے ہی میرے بھی بھائی بھابھی ہیں۔۔۔ شہزادی نے مُسکراتے ہوئے سب کو اپنے خیالات سےآگاہ کیا۔۔۔ تو سکندر نے دھیرے سے اپنا ہاتھ شہزادی کے ہاتھ پہ رکھ دیا ۔۔۔ اُس نے سکندر کے فیصلے کی لاج رکھ لی تھی ۔۔۔
ہائے ئے ئے ئے ۔۔۔۔ کیوں نہیں ۔۔۔ ہم تمھاری بھابھیاں نہیں بلکہ بڑی بہنیں ہیں ۔۔۔ سائرہ اور نجمہ شہزادی کے صدقے واری جانے لگیں ۔۔۔
لو جی پھر تو ہم کل ہی اپنا سامان لے آتے ہیں ۔۔۔ آفتاب نے پُر جوش ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
کل کیوں ؟ آج ہی لے آتے ہیں ۔۔۔ نجمہ سے تو اپنی بیتابی چھُپائے نہیں چُھپ رہی تھی۔۔۔
جی بھائی جان ! آپ آج ہی جا کر اپنا سامان لے آئیں ۔۔۔ سکندر نے مُسکراتے ہوئے بختاور سے کہا ۔۔۔
پھر وہ لوگ خوشی خوشی اپنا سامان لینے چلے گئے۔۔۔۔
آپ کا بہت شکریہ شہزادی آپ نے میرے بھائیوں کے سامنے میرا مان رکھ لیا ۔۔۔ شہزادی مہ جبین اپنی آرام گاہ میں اپنے بستر پر لیٹی ہوئیں تھیں جب سکندر نے انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔
اِس میں شکریہ کی کیا بات ہے ؟۔۔۔ ہم نے دِل سے اُنہیں یہاں رہنے کی دعوت دی ہے اور اگر آپ نہ بھی کہتے تو ہم خود اُنہیں یہاں رہنے کے لئیے کہہ دیتے۔۔۔۔ شہزادی نے سکندر کے ہاتھ پہ ہی اپنا دوسرا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔
سکندر کو خود اپنی قسمت پر رشک آ رہا تھا ۔۔۔ اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ شہزادی مہ جبین جیسی خوبصورت اور اچھے دل کی مالک لڑکی اُس کی جیون ساتھی بن جائے گی۔۔۔
لیکن ہمیں ایک بات سمجھ نہیں آ رہی ہے ؟۔۔۔ شہزادی نے سوچتے ہوئے کہا۔۔۔
کیا سمجھ نہیں آ رہا ہے آ پ کو ؟۔۔۔ سکندر نے مُسکراتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آفتاب بھائی کا بیٹا بیمار تھا اِس لئیے وہ پیسے مانگنے گئے تھے محل ۔۔۔۔ لیکن اُنکا بیٹا تو بلکل تندرست ہے ۔۔۔ دیکھنے میں بھی بیمار نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔ شہزادی نے حیرانگی سے سکندر کو دیکھا ۔۔۔
کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں ۔۔۔ لیکن کیا پتہ کل تک بیمار ہی ہو۔۔۔ سکندر نے بھی سوچتے ہوئے کہا۔۔۔
پھر دونوں نے ہی اِ س بات کو نظر انداز کر دیا۔۔۔
بختاور اور آفتاب کو دو ماہ ہو گئے تھے سکندر کے ساتھ رہتے ہوئے ۔۔۔ سکندر نے دونوں بھائیوں کو اپنے کاروبار میں ساتھ لگا لیا تھا ۔۔۔ تجارت کے لئیے زبردستی ہی کبھی بختاور چلا جاتا تو کبھی آفتاب جاتا ۔۔۔ سکندر کو وہ دونوں بہت کم جانے دیتے تھے ۔۔۔ تمھاری ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے تمھیں شہزادی کو وقت دینا چاہیے ہے ۔۔۔ تم نے بہت کام کر لیا اب ہمیں بھی تھوڑا کام کرنا چاہیے ۔۔۔ کبھی کوئی بات تو کبھی کوئی بہانہ بنا کر اُنہوں نےسکندر کو محل تک ہی محدود کر دیا تھا ۔۔۔۔
ایک دن سکندر کا ایک غلام آیا جو سکندر کے ساتھ تجارت میں جاتا تھا ۔۔ بڑے مودبانہ انداز میں سکندر سے کہنے لگا کہ ۔۔۔حضور! ایران کے ایک بہت بڑے تاجر ہیں انش ۔۔۔ وہ آج کل یہاں تجارت کرنے آئے ہیں ۔۔۔ اگر وہ ہمارا کپڑا خرید لیں تو ہمیں بہت منافع ہو گا ۔۔۔ اُدھر ہمارا کپڑا بہت پسند کیا جاتا تھا ۔۔۔ اگر آپ اُن سے ملاقات کر لیں تو بہت مناسب ہو گا ہمارے لئیے ۔۔۔۔
تم نے بختاور بھائی سے کہنا تھا ۔۔۔ آج کل وہی کپڑے کا کام سنبھال رہے ہیں ۔۔۔۔ سکندر نے سامنے پڑی پلیٹ میں سے انگور پکڑ کر مُنہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
حضور ! اگر آپ مل لیتے تو بہتر ہوتا ۔۔۔ بختاور صاحب اُن سے مل چکے ہیں مگر اُنہوں نے ہمارا کپڑا لینے سے انکار کر دیا ہے ۔۔۔ مجھے یقین ہے اگر وہ آپ سے ملیں گے تو مان جائیں گے ۔۔۔۔ غلام نے سکندر کو تاجر سے ملنے کے لئیے آمادہ کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
بختاور بھائی نے مل لیا ہے نہ تو کافی ہے اب تم جاؤ ۔۔۔ سکندر نے بے نیازی سے اُسے جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔
سُنو ! ۔۔۔۔ شہزادی مہ جبین جو پاس بیٹھی خاموشی سے اُنکی گفتگو سُن رہی تھی ۔۔غلام کو واپس بُلایا ۔۔۔
جی شہزادی صاحبہ! ۔۔۔ غلام مودبانہ انداز میں شہزادی کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا
تاجر انش کو ہمارا کپڑا کیوں نہیں پسند آ رہا ۔۔۔ جب کہ ہمارے کپڑے کی تو پورے ملک میں اور دوسرے ممالک میں بھی چرچہ ہے ۔۔۔ شہزادی نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔
شہزادی صاحبہ ! جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ؟ ۔۔۔ غلام ڈرتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔
بولو کیا کہنا چاہتے ہو ؟۔۔۔ شہزادی نے کہا
شہزادی صاحبہ ! تاجر انش کا کہنا ہے کہ ہمارے کپڑے کا معیار بہت خراب ہو گیا ہے ۔۔۔
اس لئیے وہ ہم سے کاروباری تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔۔۔۔
اسی بات پہ بختاور صاحب کی تاجر انش سے بحث بھی ہو گئی تھی۔۔۔ حضور بُرا مت منائیے گا ۔۔۔ مگر تاجر انش کی بات کسی حد تک درست بھی ہے۔۔۔ ہمارے کپڑے کا معیار گِرتا جا رہا ہے۔۔۔ اگر آپ بہتر سمجھیں تو خود کارخانے جا کر دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔غلام نے ڈرتے ہوئے سکندر کو دیکھا ۔۔۔ سکندر اُسکی باتیں سُن کر پریشان ہو گیا تھا ۔۔۔
آپ پریشان نہ ہوں ۔۔۔ اور ہمیں بھی یہی لگتا ہے کہ آپ کو خود جا کر دیکھنا چاہیے ہے۔۔۔ شہزادی نے سکندر کو پریشان ہوتا دیکھ کر کہا۔۔۔
اگر میں یوں اچانک تاجر انش سے ملنے چلا گیا تو بھائی مجھ سے ناراض ہو جائیں گے ۔۔۔ اُنہیں لگے گا میں اُن پر بھروسہ نہیں کرتا۔۔۔ سکندر نے پریشانی میں ایک نظر شہزادی پر ڈالی اور پھر گردن جھکا لی۔۔۔
ٹھیک ہے آپ تاجر انش سے نہ ملیں مگر آپ کارخانے تو جا سکتے ہیں نہ۔۔۔آج نہیں تو کل آپ نے اپنے کام پر تو جانا ہی ہے نہ؟۔۔۔ شہزادی نے سکندر کو سمجھانے کی پوری کوشش کی۔۔۔کیونکہ اُسے خود بھی سکندر کے بھائیوں پر بھروسہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں کل ہی کارخانے جاؤں گا۔۔۔ سکندر نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اگلی صبح سکندر اپنے پُرانے معمول کے مطابق اُٹھا اور بھائیوں کے جانے سے پہلے ہی کارخانے پہنچ گیا ۔۔۔
وہاں جا کر اُسکا دماغ ہی چکرا گیا ۔۔۔ اُسکے آدھے سے ذیادہ مزدور بھاگ گئے تھے اور جو باقی بچے تھے اُنکا کام بھی بلکل نہ ہونے کے برابر تھا ۔۔۔
خدا بخش !۔۔۔ خدا بخش !۔۔۔ سکندر نے اپنے ملازم کو آواز دی۔۔۔۔خدا بخش سکندر کا بہت قابل ملازم تھا ۔۔۔ سکندر نے اپنی مرضی سے اُسے اپنے باقی مزدوروں کا سرپرست بنایا تھا ۔۔۔۔ اور کارخانے کا سارا حساب کتاب بھی وہی کرتا تھا ۔۔۔۔
حضور ! ۔۔۔ خدا بخش اب یہاں کام نہیں کرتا ہے ۔۔۔ آپ مجھ سے کہئیے کیا حکم ہے ۔۔۔۔
ایک لمبا چوڑا آدمی سکندر کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا تھا ۔۔۔اور اُس نے خدا بخش کی و ردی پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔
تم کون ہو؟ سکندر نے اُسے حیرانگی سے دیکھا
میں سمندر خان ہوں ۔۔۔مجھے بختاور صاحب نے رکھا ہے ۔۔۔ خدا بخش کی جگہ پر ۔۔۔۔ سکندر نے سر سے پاؤں تک اُسے بغور دیکھا پھر کارخانے میں موجود اپنے کمرے کی طرف چل دیا ۔۔۔۔
کھاتا لے کر میرے کمرے میں آؤ۔۔۔۔
جی؟ ۔۔۔۔ سمندر خان ایک دم گھبرا گیا ۔۔۔۔
سُنائی نہیں دیتا کیا؟۔۔۔۔ کھاتا لے کر آؤ۔۔۔۔سکندر نے غصے سے سمندر خان کو کہا۔۔۔
جی حضور ابھی لایا ۔۔۔۔ سمندر خان بھاگتے ہوئے کھاتا لینے چلا گیا۔۔۔۔
اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی سکندر کو دھچکا لگا تھا ۔۔۔ اسکا کمرہ بلکل ہی بدل چکا تھا ۔۔۔ ہر طرف عیاشی کا سامان رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔
یہ سب کیا ہے سمندر خان ؟ ۔۔۔ سمندر خان ہاتھ میں کھاتا لئیے کھڑا تھا جب سکندر نے اُس سے سوال کیا ۔۔۔
وووو۔۔۔ وہ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔ سمندر خان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دے ۔۔۔۔
کیا ۔۔۔ وہ وہ ۔یہ یہ لگا رکھا ہے ۔۔۔ جو پوچھا ہے وہ بتاؤ۔۔۔ سکندر کو اب مزید غصہ آنے لگا تھا ۔۔۔
ارے سکندر تم یہاں ؟۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ سمندر خان کچھ بولتا ۔۔۔ بختاور اور آفتاب کمرے میں داخل ہوئے ۔۔۔۔بختاور اور آفتاب سکندر کو اچانک دیکھ کر بوکھلا گئے تھے۔۔۔۔