قسمت بھی عجیب کھیل کھیلتی ہے۔۔۔ جو ایک عام انسان کی ناقص عقل سے بالاتر ہتے ہیں ۔۔۔۔ کبھی کبھی انسان جسے اپنی کمزوری سمجھ رہا ہوتا ہے وہی اسکی ڈھال بن جاتی ہے ۔۔۔ سکندر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔
بھالا سکندر کو پکڑ کر غار میں لے گیا۔۔۔وہ تھوڑی ہی دیر میں بھاگتا ہوا غار سے باہر آ گیا۔۔۔
تجھے کیا ہوا ہے کمبخت ؟۔۔۔تو نہیں جانتا کہ دن چڑھنے والا ہے اور دن چڑھ گیا تو ہم قربانی نہیں دے سکیں گے۔۔۔ سردار نے بھالے کو اکیلا غار سے باہر آتے دیکھا تو طیش میں آ گیا۔۔۔
سردار قربانی تو ہم اب بھی نہیں دے سکتے ہیں ۔۔ بھالے نے یہ کہا ہی تھا کہ باچھو کا ذناٹے دار تھپڑ اس کے گال لال کر گیا۔۔۔
کیا بکواس کر رہا ہے ؟ تجھے نہیں پتہ سردار کے سامنے کیا بات کرنی ہے کیا نہیں کرنی؟ ۔۔۔ باچھو نے غصے سے بھالے کی گردن دبوچ لی۔۔۔
بھالا زبردستی اپنی گردن چھڑوا کر سردار کے پیروں میں گِر گیا۔۔۔ سردار میں سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔میں نے اس لڑکے کے اوپر سے چادر اُتاری تو مجھے پتہ چلا کہ اُس کا تو ایک بازو ہی نہیں ہے ۔۔۔ آپ خودی بتائیں سردار ہم ادھوری قربانی کیسے دے سکتے ہیں ۔۔۔
بھالے کی بات سُن کر سب حیران ہو گئے ۔۔۔باچھو بھاگتا ہوا غار کے اندر چلا گیا۔۔۔ جب وہ باہر آیا تو اسکے چہرے سے لگ رہا تھا کہ بھا لا سچ کہہ رہا ہے۔۔۔
باچھو کو گردن لٹکائے دیکھ کر سردار بھی بھاگتا ہوا غار کے اندر چلا گیا ۔۔۔ باقی سب بھی اسکے پیچھے غار میں چلے گئے ،،،۔۔۔
سردار نے جاتے ہی سکندر کو گردن سے دبوچ لیا اور ہوا میں تھوڑا اُوپر اُٹھا دیا۔۔۔ سکندر کا تو سانس نہیں نکل رہا تھا ۔۔۔اُس نے بہت کوشش کی خود کو چھڑوانے کی لیکن سردار کی گرفت اسکی گردن پر بہت مظبوط تھی۔۔۔پھر سردار نے اُسے زور سے ایک طرف اُچھال دیا ۔۔۔
سکندر کا سر ایک دیوار سے جا لگا۔۔۔ سردار پھر سے سکندر کی طرف بڑھا اور اسکے پیٹ میں ، مُنہ پر ،کمر میں ،،جگہ جگہ اُسے ٹانگیں مارنے لگا۔۔۔سکندر درد سے چیختا رہا اور معافی مانگتا جا رہا تھا۔۔۔
تیری وجہ سے ہم نے اپنا ہاتھ آیا شکار کھو دیا ہے۔۔۔صرف تیری وجہ سے۔۔۔سردار نے اسے بالوں سے پکڑسیدھا کیا اور کر ایک زور دار مُکا اسکے منہ پر مارا۔۔۔ سکندر کے مُنہ سے خون نکلنے لگا اور وہ بے سُدھ ہو کر زمین پر گِر گیا۔۔۔ سردار غصے میں غار سے باہر آ گیا۔۔۔
باہر آ کر اُس نے دیکھا کہ سورج نکل رہا تھا اور رات ختم ہو گئی تھی۔۔۔ اُسے مزید غصہ آنے لگا.۔۔اب تو بَلی چڑھانے کا وقت بھی ختم ہو چکا تھا ۔۔۔ سردار غصے میں پاگل ہو گیا تھا ۔۔ اُس نے اپنا ہنٹر اُٹھایا اور سارے جنگلیوں کو مارنا شروع کر دیا۔۔۔ سب اس سے بچنے کے لئیے اِدھر اُدھر چھُپنے لگے۔۔۔ باچھو نے آ کر سردار سے گزارش کی کہ اس میں اِن سب کا کیا قصور ہے۔۔ جس کا قصور ہے سزا تو اُسے ملنی چاہیے ہے نہ۔۔۔۔سردار نے اپنا ہاتھ روک لیا اور غار میں جا کر بے سُدھ پڑے ہوئے سکندر پر کوڑے برسانے شروع کر دئیے ۔۔۔ سکندر کی چیخیں سارے غار میں گونجنیں لگیں ۔۔۔
سردار جب سکندر کو مار مار کے تھک گیا تو ایک پتھر پر بیٹھ کر ہانپنے لگا۔۔۔ سکندر بیہوش ہو چکا تھا۔۔۔
باچھو! سردار نے گرج دار آواز میں باچھو کو بُلایا۔۔۔
جی سردار! باچھو بھاگتا ہوا سردار کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
لے جاؤ اس نامراد کو میرے سامنے سے ۔۔۔اور اسکی یہی سزا ہے کہ ہر ہفتے اسے بیس کوڑے مارے جائیں ۔۔جب تک ہم اگلے سال اپنے دیوتا کو بَلی نہیں چڑھا دیتے۔۔۔سردار نے باچھو کو حکم دیا
باچھو سکندر کو بازو سے گھسیٹتا ہوا غار سے باہر لے گیا اور بھالے کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔۔۔ بھالا بھاگتا ہوا باچھو کے پیچھے چلنے لگا۔۔۔ باہر جا کر باچھو نے بھالے کو حکم دیا کہ سکندر کو اپنی جھونپڑی میں لے جائے اور اسکی مرہم پٹی کرے ۔۔۔
بھالے نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور سکندر کو اپنی جھونپڑی میں لے گیا۔۔۔۔بھالا بھاگتا ہوا جنگل میں گیا ۔۔ وہاں سے ایک جڑ ی بوٹی توڑ کر لے آیا۔۔۔ جڑی بوٹی کو پیس کر اُس نے اُسے سکندر کے زخموں پر لگایا تو سکندر کے زخموں سے رِستا ہوا خون بند ہو گیا۔۔۔
اگلے دن سکندر کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک جھونپڑی میں پایا ۔۔۔ اُس کے سارے جسم پر سبز رنگ کا کچھ لگا ہوا تھا ۔۔۔
لیٹے رہو ۔۔لیٹے رہو۔۔۔ سکندر اُٹھنے ہی لگا تھا کہ کسی کی آواز پر اُس نے مُڑ کر دیکھا تو وہاں تقریباً دس سال کا ایک جنگلی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔
تمھیں ہوش آ گیا ؟ وہ ابھی کچھ سمجھ ہی نہیں سکا تھا کہ اُسے بھالا جھونپڑی سے اندر آتا دِکھائی دیا۔۔۔
سکندر نے سوالیہ نظروں سے بھالے کو دیکھا۔۔
بھالے نے آگے بڑھ کر سکندر کو پھر سے بستر پر لیٹا دیا۔۔۔ تم ابھی اتنے ٹھیک نہیں ہوئے ہو۔۔۔ ابھی لیٹے رہو۔۔۔ میرا نام بھالا ہے ۔۔۔ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے ۔۔۔تارو ۔۔۔ بھالے نے اُس لڑکے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
یہ میری جھونپڑی ہے ۔۔۔ آج سے تم بھی یہیں رہو گے۔۔۔۔
سکندر کچھ نہ بولا ۔۔۔ اُس کے زخم ابھی تازہ تھے ۔۔۔ تکلیف تھوڑی کم ہو گئی تھی لیکن ختم نہیں ہوئی تھی۔۔۔ وہ پھر آنکھیں موند کر لیٹ گیا۔۔۔ تین چار دن وہ اسی طرح بھالے کی جھونپڑی میں رہا۔۔۔ بھالا اور اسکا بھائی اسکا بہت خیال رکھتے تھے۔۔۔ باچھو روز آ کر اُسے دیکھ کر چلا جاتا۔۔۔
سکندر اب کافی بہتر ہو گیا تھا ۔۔۔ سکندر اُٹھ کر جھونپڑی سے باہر جانے لگا تھا کہ بھالے نے اُسے باہر جانے سے روک دیا۔۔۔
کیوں بھالے میں کیوں باہر نہیں جا سکتا ؟ اب تو میں کافی بہتر ہوں بلکہ اب تو میں اپنے گھر جانے کے بھی قابل ہو گیا ہوں ۔۔۔ سکندر نے بھالے سے روکنے کی وجہ پوچھی تو دونوں بھائی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔۔۔ تمھیں گھر جانے کون دے گا؟ ۔۔۔ یہ غلط فہمی اپنے دل سے جتنی جلدی نکال دو گے اُتنا ہی بہتر ہے۔۔۔ یہ لوگ ابھی تمھارے ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔ جس دن تم ٹھیک ہو جاؤ گے اُسی دن تمھاری سزا شروع ہو جائے گی۔۔۔بھالے نے سکندر کو کندھوں سے پکڑ کر پھر سے اُسے بستر پر بٹھا دیا۔۔۔
سزا؟،،،کیسی سزا؟ اِتنا انہوں نے مجھے مارا ہے ۔۔۔ کیا وہ سزا کافی نہیں تھی؟۔۔۔ سکندر سزا کا سُن کر چونک گیا تھا ۔۔۔۔
نہیں وہ سزا انکے نزدیک کافی نہیں تھی ۔۔۔اُنہیں لگتا ہے کہ اُنکا دیوتا اُن سے ناراض ہو گیا ہے ۔۔۔ جب تک وہ اگلے سال اپنے دیوتا کو بَلی نہیں دیں گے تب تک تمھاری سزا جاری رہے گی۔۔۔ تمھیں ہر ہفتے بیس کوڑے مارے جائیں گے ۔۔۔ پھر تمھاری مرہم پٹی کی جائے گی تاکہ اگلے ہفتے کے لئیے تمھیں پھر سزا کے لئیے تیار کیا جا سکے۔۔۔بھالے نے سکندر کو ساری بات تفصیل سے بتا دی ۔۔۔
پھر وہی ہوا جیسا بھالے نے کہا تھا ۔۔ ہفتہ پورا ہوتے ہی دو جنگلی سکندر کو لینے آ گئے اُسے لے جا کر تختے کے ساتھ باندھ دیا اور باچھو نے کوڑا پہلے سے ہی ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ۔۔۔ سردار اپنی بڑی سی کُرسی پر بیٹھا ہوا خونخوار نظروں سے سکندر کو ہی دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔ باچھو نے بیس کوڑے سکندر کو مارے اور نڈھال کر کے پھر سے اُسے بھالے کی جھونپڑی میں پھینک دیا گیا۔۔۔سب لوگ باچھو سے بہت ڈرتے تھے۔۔۔
باچھو سردار کا خاص آدمی تھا ۔۔۔ وہ سردار سے بھی ذیادہ سخت دِل اور ظالم تھا۔۔۔
بھالا اور تارو سکندر کے زخموں پر جڑی بوٹی پیس کر لگا رہے تھے تو سکندر کی نظر اچانک بھالے کے چہرے پر پڑی تو وہ رو رہا تھا ۔۔۔
تم رو رہے ہو بھالے ؟ سکندر بہت حیران تھا کہ جنگلیوں کو بھی عام انسانوں کی طرح رونا آتا ہے۔۔۔ تم لوگ تو کسی کی تکلیف پر روتے نہیں ہو۔۔۔لیکن تم ان سب سے بہت مختلف ہو ۔۔۔بلکہ تم دونوں بھائی ہی سب سے مختلف ہو ۔۔۔ سکندر خودی سوال بھی کر رہا تھا اور خودی جواب بھی دے رہا تھا ۔۔۔۔
بھالے تم میرے بابا کو گھر تک چھوڑ آئے تھے نہ؟ سکندر کو اس دن والی بات یاد آئی جب بھالا اسکے باپ کو گاؤں چھوڑنے گیا تھا
نہیں بس گاؤں کے باہر ہی چھوڑ کر آ گیا تھا ۔۔۔ گاؤں کے اندر جاتا تو تمھارے بابا کے ساتھ مجھے دیکھ کر گاؤں کے لوگ نہ جانے کیا سمجھتے ۔۔۔ تم اپنے بابا سے بہت پیار کرتے ہو نہ؟۔۔۔ بھالے نے سکندر کو اپنے باپ کے لئیے پریشان ہوتے دیکھا تو پوچھ لیا
ہاں ۔۔۔ سکندر نے دھیمے سے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔ درد کی وجہ سے وہ ذیادہ بول نہیں پا رہا تھا
وہ بھی تم سے بہت پیار کرتے ہوں گے؟ ۔۔۔ تارو کے سوال پر سکندر کی مسکراہٹ کم ہو گئی تھی۔۔
ابھے تارو ! تو کیا پوچھنے بیٹھ گیا ہے ۔۔۔ جا سکندر کے لئیے کھانا لے کر آ
تارو بھاگتا ہوا جھونپڑی سے باہر چلا گیا۔۔۔ اور سکندر نے آنکھیں بند کر لیں اُسے اب درد ذیادہ محسوس ہونے لگا تھا ۔۔۔ شاید یہ تارو کے سوال کا اثر تھا۔۔۔
اگلے دن سکندر کا درد کچھ کم ہو گیا تھا ۔۔۔ وہ اپنے بستر سے اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ بھالے نے فوراً سے آ کر اُسے سہارا دیا۔۔۔ سکندر اُٹھ کر مُنہ ہاتھ دھونے لگا۔۔۔ بھالے نے اُسے ناشتا لا کر دیا ۔۔۔۔
میرے لئیے اتنا مت کیا کر بھالے۔۔۔ تو کب تک مجھے سہارا دیتا رہے گا؟۔۔۔ یہ لوگ مجھے کبھی یہاں سے جانے نہیں دیں گے ۔۔۔کیوں کرتا ہے تو میرے لئیے یہ سب؟ ۔۔۔ سکندر اُسکے اچھے برتاؤ سے بہت حیران ہوتا تھا ۔۔۔۔
تو اپنے بابا سے بہت پیار کرتا ہے نہ ۔۔۔ بس اسی لئیے تو مجھے اچھا لگتا ہے۔۔۔ تجھے پتہ ہے میں بھی اپنے بابا سے بہت پیار کرتا تھا ۔۔اور وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔۔۔ بلکہ بہت ذیادہ پیار کرتے تھے تارو سے بھی اور مجھ سے بھی۔۔۔۔بھالا اپنے باپ کو یاد کر کے رونے لگا
رو مت بھالے ! ۔۔کیا ہوا تھا تیرے بابا کو؟۔۔۔
میرے بابا بہت پیارے تھے ۔۔۔ میرے بابا طبیب تھے ۔۔۔ سب گاؤں والے انکی بہت عزت کیا کرتے تھے ۔۔۔ ہمارے گاؤں سے شہر بہت دور تھا ۔۔۔ بابا اپنی دوائیوں کا سامان لینے شہر جایا کرتے تھے ۔۔۔۔ ایک دن ہم دونوں ضد کرنے لگے کہ ہم نے بھی شہر دیکھنا ہے ۔۔۔ تب میں سات سال کا تھا اور تارو پانچ سال کا ۔۔۔ بابا ہمیں بھی اپنے ساتھ شہر لے گئے ۔۔شہر میں ہمیں کافی دیر ہو گئی ۔ واپسی پر بارش ہونے لگی ۔۔۔
بابا نے کہا بارش تیز ہوتی جا رہی ہے ہم چھوٹے راستے سے گاؤں چلے جاتے ہیں ۔۔۔ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔ بابا نے تارو کو گود میں اُٹھا یا ہوا تھا اور میں بابا کی انگلی پکڑ کر چل رہا تھا ۔۔۔
پھر بابا سڑک سے اُتر کر جنگل کے راستے سے جانے لگے ۔۔کیونکہ چھوٹا راستہ جنگل سے ہو کر گزرتا تھا ۔۔۔ بس وہی ہم نے غلطی کر دی ۔۔۔ جنگلیوں نے ہم تینوں کو پکڑ لیا اور اپنے قبیلے لے گئے ۔۔۔ وہ اُن دِنوں اپنے دیوتا کو بَلی دینے کے لئیے انسان ڈھونڈ رہے تھے ۔۔۔ اُنہوں نے ہمارے بابا کو ہمارے سامنے مار ڈالا اور ہم کچھ نہ کر سکے ۔۔۔
بابا نے مرنے سے پہلے سردار سے آخری خواہش کی تھی کہ اُنکے بچوں کی جان بخش دے اور اُنہیں جانے دے ۔۔۔ سردار نے بابا کی خواہش منظور کر لی۔۔۔ ہماری جان تو بخش دی لیکن ہمیں واپس نہ جانے دیا۔۔۔ہم نے بہت دفعہ یہاں سے بھاگنے کی کوشش بھی کی لیکن ہر بار پکڑے جاتے تھے ۔۔۔ اور جب پکڑے جاتے تو باچھو ہمیں بہت مارتا تھا ۔۔۔
سزا سے بچنے کے لئیے باچھو جو کہتا ہم وہی کرتے تھے ۔۔پھر وہ مجھ پر بھروسہ کرنے لگا ۔۔۔لیکن وہ ہم دونوں کو اکٹھے کام پہ نہیں بھیجتا ۔۔ ہم دونوں کو قبیلے سے باہر جانے کی اِجازت نہیں ۔۔۔میرا نام ایاز ہے اور میرے چھوٹحے بھائی کا نام فیاض ۔۔۔۔ بھالا اور تارو یہ نام ہمیں جنگلیوں نے دیے ہیں ۔۔۔۔ اب تو ہم نے یہاں سے جانے کا سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔۔۔بھالا اپنی بات سُناتے ہوئے رو پڑا ۔۔۔
تو رو مت بھالے ایک دن ہم یہاں سے بھاگ جائیں گے ۔۔۔ سکندر نے بھالے کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
گرمیاں ختم ہو گئی تھیں اور سردی بڑھنے لگی تھی۔۔. برف باری بھی ہونے لگی تھی۔۔۔
جنگلی تھے تو بہت سخت جان لیکن سردی اتنی بڑھ گئی تھی کہ جنگلی بھی اُس سردی کے آگے بے بس ہو گئے تھے۔۔۔ایک رات سردی بہت بڑھ گئی تھی تو بھالا اور تارو نے زمین سے اپنا بستر اُٹھا یا تو اسکے نیچے لکڑی کا ایک دروازہ سا بنا ہوا تھا ۔۔۔
یہ کیا ہے؟ سکندر نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
شش شش ۔۔۔ بھالے نے مُنہ پر اُنگلی رکھ کر سکندر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
پھر آہستہ سے اُس نے دروازہ کھولا تو اُس میں بہت سا سامان پڑا ہوا تھا ۔۔۔ بھالے نے اُس میں سے ایک کمبل نکالا اور وہ تینوں مشکل سے اُس کمبل میں پورے آئے تھے ،،، مگر کمبل کافی موٹا تھا ۔۔۔اس کی وجہ سے سردی میں کافی کمی آ گئی تھی۔۔۔
یہ تمھیں کہاں سے مِلا؟ سکندر نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا ۔۔۔
دو سال پہلے اِنہوں نے پہاڑی کے پیچھے سے چند مسافروں پر حملہ کیا تھا ۔۔۔ اِنہوں نے ایک کو قربانی کے لئیے اُٹھا لیا اور باقی سب بھاگ گئے تھے ۔۔۔ اُن کا سامان رہ گیا تھا ۔۔۔ اُن کے سامان میں سے کمبل اور کچھ ضرورت کی چیزیں میں نے لکڑیوں کے گٹھے میں چھپا لیں اور اپنی جھونپڑی لے آیا ۔۔۔ کسی کی نظر نہ پڑے اِس لئیے ہم نے زمین کے نیچے یہ الماری بنا لی ہے۔۔۔۔ سردی دِن بدن بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔ اب تو جنگلیوں کے لئیے بھی ناقابلِ برداشت ہو گئی تھی ۔۔۔۔ایک صبح پتہ چلا کہ دو جنگلی سردی سے مر گئے ہیں۔۔۔ سب نے کہنا شروع کر دیا کہ اُنکا دیوتا ناراض ہو گیا ہے اس لئیے اتنی سردی بڑھ گئی ہے ۔۔۔ یہ بات سردار کے کانوں میں بھی پڑ گئی ۔۔۔ اُس نے سکندر کو اپنی غار میں بُلوایا۔۔۔ باچھو سکندر کو گھسیٹتا ہوا سردار کے سامنے لے گیا۔۔۔۔
سردار سکندر کو دیکھتے ہی طیش میں آ گیا۔۔۔ اُس نے سکندر کو لاتوں اور مُکوں سے مارنا شروع کر دیا۔۔۔سکندر کے ناک مُنہ سے خون آنا شروع ہو گیا ۔۔ابھی تو اسکے پُرانے زخم بھی نہیں بھرے تھے ۔۔۔۔ سکندر کو مارتے مارتے سردار تھک کر بیٹھ گیا۔۔۔ تو سکندر خود کو گھسیٹتا ہوا ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔اور سردار کو دیکھنے لگا ۔۔۔ سردار اگر آپکی اِجازت ہو تو میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ۔۔ سکندر نے بہت مودبانہ انداز میں سردار سے کہا۔۔۔
تیری اتنی اوقات ہے کہ تو سردار سے بات کر سکے ۔۔۔۔ باچھو نے آگے بڑھ کر سکندر کے مُنہ پر مُکا مارا۔ تووہ پھر سے زمین پر جا گِرا ۔۔۔ اُس نے پھر خود کو اُٹھایا اور سردار سے مخاطب ہوا۔۔۔
آپ کے بھلے کی ہی بات ہے ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ باچھو اُسے ایک اور مُکا مارتا ۔۔۔ سردار نے ہاتھ کے اِشارے سے اُسے روک دیا۔۔۔
سردار آپ ایک دفعہ اسکی بات سُن لیں۔۔۔ بھالے نے بھی اُس کی سفارِش کی۔۔۔۔
اگر تمھاری بات سُننے کے قابِل نہ ہوئی تو تمھیں یہیں گاڑھ دوں گا۔۔۔سردار نے سکندر کو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
سکندر جانتا تھا کہ جنگلی بہت طاقتور ہیں وہ اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔۔۔ لیکن وہ یہ بھی جان گیا تھا کہ سردار سمیت سبھی عقل سے پیدل ہیں ۔۔۔
سکندر نے گہری سانس لی اور اپنی بات سُنانے لگا۔۔۔۔کل میرے خواب میں آپ کے دیوتا آئے تھے۔۔۔ اُنہوں نے مجھے سردی سے بچنے کا حل بتایا ہے۔۔۔
کیا بکواس کر رہے ہو ؟ ۔۔۔ ہمارے دیوتا تمھارے خواب میں کیوں آئیں گے؟ ۔۔۔ باچھو کو سکندر کی بات پہ یقین نہیں تھا ۔۔۔
بھالا اور تارو بھی آنکھیں پھاڑے سکندر کو دیکھ رہے تھے اُنہیں بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سکندر کہنا کیا چاہتا ہے؟۔۔۔
کیونکہ میری وجہ سے تم لوگ اپنے دیوتا کو قربانی نہیں پیش کر سکے ۔۔۔ تم سے اُن کی ناراضگی کی وجہ تو میں ہی ہوں نہ۔۔۔اسی لئیے وہ میرے خواب میں آئے تھے۔۔۔۔سکندر نے اتنے پُر اعتماد انداز میں کہا کہ سردار بھی چونک گیا۔۔۔
پھر کیا حل بتایا اُنہوں نے تمھیں؟ سردار سکندر کو بغور دیکھ رہا تھا اور شاید اُسکی بات پر یقین بھی کر رہا تھا ۔۔۔
سکندر نے ایک نظر باچھو کو دیکھا اور پھر سے اپنی من گھڑت کہانی سُنانے لگا۔۔۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ جنگل کے دوسری طرف جو ندی ہے ۔۔اُس ندی کے پار دو اُونچے پہاڑ ہیں ۔۔۔اُن پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑی گُفا ہے۔۔۔ اگر ہم سب مِل کر جلانے کے لئیے لکڑی اور کچھ راشن جمع کر کے وہاں لے جاہیں تو اِس سردی سے سب کی جان بچ سکتی ہے۔۔۔ دو ماہ تک ہم اُسی گُفا میں رہیں گے ۔۔۔
بھالا من ہی من میں بہت ڈر رہا تھا کیونکہ گُفا کے بارے میں سکندر کو اُسی نے ہی بتایا تھا ۔۔۔ مگر وہ گُفا تو اُس نے خود کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔ اُس گفا کے بارے میں اُس نے اپنے بابا سے سُنا تھا کہ وہ ایک دن راستہ بھٹک گئے تھے تو رات اُنہوں نے دو پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑی گُفا میں گُزاری تھی ۔۔۔اور سکندر نے خود سے ہی اندازہ لگایا تھا کہ ندی کے پار جو دو پہاڑ نظر آتے ہیں ۔۔گُفا اُنہی کے درمیان ہو گی۔۔۔
لیکن اُن کی ناراضگی کیسے ختم ہو گی۔۔۔سردار نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
اُنہوں نے کہا تھا یہاں واپس آنے سے پہلے اگر قبیلے کا سردار پانچ اُونٹوں کی قربانی دے کر ۔۔گوشت پورے قبیلے میں بانٹے گا ۔۔۔ تو دو ماہ بعد جب سب لوگ قبیلے میں واپس آئیں گے تو سب مصیبت ٹل جائے گی۔۔۔ سکندر جانتا تھا کہ دو ماہ بعد سردی چلی جائے گی ۔۔۔اِسی لئیے اُس نے سردار کو دو ماہ گُفا میں رہنے کی کہانی سُنائی۔۔۔
سردار یہ بکواس کر رہا ہے وہاں کوئی گُفا نہیں ہے۔۔۔اور ہم اِتنی ذیادہ لکڑی کہاں سے جمع کریں گے؟ ۔۔۔ باچھو نے سردار کو سکندر کی باتوں سے نکالنے کی کوشش کی ۔۔۔
میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ۔۔۔ اگر آپکو یقین نہیں تو کسی کو بھجوا کر پتہ کروا لیں ۔۔کل تک آپ کو سب واضح ہو جائے گا۔۔۔ اگر وہاں گُفا ہوئی تو آپ لوگوں کو میری بات ماننی پڑے گی ورنہ آپ کا دیوتا مزید ناراض ہو جائے گا۔۔۔ اور جہاں تک لکڑیوں کی بات ہے وہ میں جانتا ہوں کہاں سے ملیں گی۔۔۔ میں ایک لکڑہارے کا بیٹا ہوں اور لکڑیاں جمع کرنا ہمارا پیشہ ہے۔۔۔۔سکندر نے اپنے جھوٹ پر آخری مہر لگائی اور سب سردار کو دیکھنے لگے۔۔۔
باچھو تم ایک آدمی کو ساتھ لے جاؤ اور ندی کے پار دیکھ کر آؤ کہ گُفا وہاں موجود ہے کہ نہیں ۔۔اور ہاں ! باہر بہت طوفانی سردی ہے احتیاط کے ساتھ جانا۔سردار نے باچھو کو حکم دیا
جو حکم سردار ۔۔۔ باچھو سر جھکاتا ہوا ایک لڑکے کو اپنے ساتھ لے کر ندی کی جانب روانہ ہو گیا
ایک بات یاد رکھنا اگر ندی کے پار کوئی گُفا نہ ہوئی تو کل تمھاری زندگی کا آخری دِن ہو گا۔۔۔سردار نے سکندر کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
سردار کے اشارے پر بھالے نے آگے بڑھ کر سکندر کو سہارا دیا اور اپنی جھونپڑی میں لے گیا۔۔۔
یہ کیا کر دیا تم نے؟ ۔۔۔ نہ تم جانتے ہو اور نہ میں کہ وہاں کوئی گُفا ہے بھی کہ نہیں ۔۔۔خود تو مرو گے ہمیں بھی مرواؤ گے۔۔۔ بھالا غصے میں سکندر کو ڈانٹنے لگا۔۔۔
روز روز مرنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگ مجھے ایک ہی دن مار دیں۔۔ اور تم فکر نہ کرو میں تمھارا نام نہیں لوں گا۔۔۔ وہ لوگ تمھیں کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔ بس دُعا کرو جو میں نے کہا ہے وہ سچ ہو جائے۔۔۔ سکندر نے بھالے کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔
سب نے رات جاگتے ہوئے گزار دی ۔۔۔ سردار سمیت کوئی بھی سو نہیں سکا تھا۔۔۔ سب یہی دُعا کر رہے تھے کہ جو سکندر نے کہا ہے وہ سچ ہو۔۔۔ کیونکہ سب ہی سردی کی شدت سے بہت پریشان تھے۔۔۔
اگلے دن باچھو واپس لوٹا تو سیدھا سردار کے پاس گیا جو کہ پہلے سے ہی باچھو کا مُنتظر تھا ۔۔۔
کیا خبر لائے ہو؟ سردار نے پوچھا
سبھی سردار کی جھونپڑی کے آگے جمع ہو گئے تھے
سردار وہ لڑکا ٹھیک کہہ رہا ہےاُن پہاڑوں کے درمیان بہت بڑی گُفا ہے۔۔۔ اُس میں ہمارے قبیلے کے سب لوگ آرام سے آ جائیں گے۔۔۔ باچھو نے سردار کے آگے بیٹھتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے آج اور کل کا دن ہم سب مل کر راشن اور جلانے کے لئیے لکڑی جمع کر لیتے ہیں ۔۔۔بلکہ اُس لڑکے کو ساتھ لے جاؤ اور لکڑیا ں لے آؤ ۔۔۔سردار نے فوراً حکم جاری کر دیا۔۔
سکندر بہت ہی زخمی حالت میں تھا ۔۔۔ پھر بھی وہ اُن لوگوں کے ساتھ جانے کو تیار تھا ۔۔۔
دو دن لگا کر اُنہوں نے راشن اور لکڑیاں جمع کیں ۔۔۔ پھر سارا قبیلہ گُفا کی جانب روانہ ہو گیا۔۔۔
یہ تو واقعی بہت بڑی گُفا ہے۔۔۔ گُفا میں پہنچتے ہی تارو نے حیرانگی سے چاروں طرف دیکھا۔۔۔
سب لوگ علیحدہ علیحدہ جگہوں پر اپنا سامان لے کر بیٹھ گئے ۔۔۔ وہاں سردی قدرے کم تھی ۔۔لیکن آگ جلانے کی ضرورت تھی ۔۔۔ سردار کے حکم پر گُفا کے بیچوں بیچ لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی گئی ۔۔جس کی وجہ سے گُفا کے اندر کا ماحول بہت پُر سکون ہو گیا۔۔۔وہ لوگ وہیں دن رات گزارنے لگے ۔۔ سکندر کے لئیے سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اُسکی سزا منسوخ کر دی گئی تھی ۔۔۔ اِس ہفتے اُسے کوڑے نہیں مارے گئے تھے۔۔۔ وہ چند دن سکندر سکون کی نیند سویا تھا ۔۔۔
نہ جانے آگے اسکے ساتھ کیا ہونے والا تھا ۔۔۔۔